ہم پرچمِ حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں
آنکھیں ستم گروں سے ملائے ہوئے تو ہیں
ہر چند زخم زخم ہیں یہ رہروانِ شوق
کانٹوں سے پیرہن کو سجائے ہوئے تو ہیں
بے چہرہ ہو کے رہ گئے فن کار آج کے
ہم اپنا ایک نقش بنائے ہوئے تو ہیں
ہوں کامیابِ شوق کہ اب نامرادِ شوق
بازی سروں کی اپنے لگائے ہوئے تو ہیں
ظلمت کدے میں وہم و گماں کے عزیزؔ ہم
قندیل آگہی کی جلائے ہوئے تو ہیں
No comments:
Post a Comment