جب بھی تیرا شباب لکھتا ہوں
حسرتوں کو عذاب لکھتا ہوں
تُو نے پوچھا نہ جو سوال کبھی
میں اُسی کا جواب لکھتا ہوں
کیا حقیقت ہے تیرے وعدوں کی
میں تو جیون کو خواب لکھتا ہوں
اپنے کھاتے میں ڈال کر کانٹے
تیری خاطر گلاب لکھتا ہوں
تجھ سے منسوب ہو ہی جاتی ہے
میں جو کوئی کتاب لکھتا ہوں
میرے نغموں میں رنج و غم ہی سہی
میں مگر ، لاجواب لکھتا ہوں
کانپ جاتا ہوں جب کبھی میں سہیلؔ
فکرِ روز ِحساب لکھتا ہوں
No comments:
Post a Comment