سچ کے اب دہر میں آثار نہیں ہے بابا
بھوکا رہتا ہے جو ، مکار نہیں ہے بابا
چھین لے منہہ سے جلیبی جو غریبوں کے بھی
ایسا حاکم ہمیں درکار نہیں ہے بابا
ڈر سمایا ہے کورونا کا کچھ اس طرح یہاں
کوچۂ حسن بھی گلزار نہیں ہے بابا
سب دعا کرتے ہیں زر، کار، زمیں ، بنگلے کی
کوئی ایماں کا طلب گار نہیں ہے بابا
اک پڑوسی مرا سوتا ہے تجوری لے کر
اس کو بیوی سے کوئی پیار نہیں ہے بابا
تیرے اس شہرِ محبت میں یہی دیکھا ہے
ایک انساں بھی ملنسار نہیں ہے بابا
ظرفؔ ملت کی عمارت جو بنا دے پختہ
میری نظروں میں وہ معمار نہیں ہے بابا
No comments:
Post a Comment