ہرگھڑی رنج سے بیزار ہوئی جاتی ہے
رہ گزر زیست کی پر خار ہوئی جاتی ہے
صرف تقدیر پہ تکیہ ہے عمل کچھ بھی نہیں
زندگی اس لئے بیمار ہوئی جاتی ہے
یوں تو خاموش بہت رہتی ہوں لیکن مجھ میں
اک قیامت ہے جو بیدار ہوئی جاتی ہے
رہنما جتنے تھے محمودہؔ وہ رہزن نکلے
میری منزل یونہی دشوار ہوئی جاتی ہے
No comments:
Post a Comment