یوم پیدائش 17 جون 1951
خاموش نگاہوں میں بھی پیغام بہت ہیں
اور عشق و محبت کے بھی اصنام بہت ہیں
تم شہرِ وفا میں رہو نظریں بھی جھکائے
بک جائیں یہ دل شہر میں بے دام بہت ہیں
ہم ہی نہیں اس شہر میں لاکھوں ہی پڑے ہیں
مردانِ وفا شہر میں گل فام بہت ہیں
ہم عزت و ناموسِ نساء رکھتے ہیں دل میں
چلنا ہو اگر ساتھ تو دو گام بہت ہیں
الفت کی نظر متمعِ عشاق بہت ہے
اور عشق میں جو پھنس گئے بدنام بہت ہیں
دل جیت کے جو حد میں رہے مرد وہی ہے
تو عزت و توقیر بھی انعام بہت ہیں
مرزے کی کہانی میں ہوا جو بھی ہوا تھا
صحباں کی محبت میں یہ دشنام بہت ہیں
ہو سچی محبت تو ہیں دشمن بھی ہزاروں
رانجھے کے لئے کہدو کے اقدام بہت ہیں
معین لہوری رمزی
No comments:
Post a Comment