دِل خطا کا تِری کیا چارہ کریں
مذہبِ عشق میں کفارہ کریں
کوزہ گر جو مجھے دوبارہ کریں
اُس کی مٹّی سے مِرا گارا کریں
سنگ دیوانے کی قسمت ہے مگر
پھول کو پھول سے ہی مارا کریں
ہم نے آنکھوں سے نمک جھاڑ دِیا
آپ بھی جھیل کو مت کھارا کریں
استعارے تو بہت ہیں لیکن
نام اب اُس کا غزل پارہ کریں
اِتنا کیوں آگ بگولا ہوئے تم
ہم بھی کیا اپنے کو انگارا کریں
زِندگانی ہے جُواری کی طرح
جیتنے کے لیے کُچھ ہارا کریں
ایسا کوئی نہیں مِلتا "دلبر"
جس کے حصّے میں سُخن سارا کریں
راکیش دلبر سلطانپوری
No comments:
Post a Comment