من کے پاپوں کو نہیں ڈھانپنے والے کپڑے
لاکھ تو جسم پہ نایاب سجالے کپڑے
آج بھی میں ہوں وہی کمرہ ہے تنہائی ہے
آج بھی پھرتی ہوں پہنے ہوئے کالے کپڑے
اتنے برسوں میں ترے لمس کی خوشبو نہ گئی
روئی الماری سے جب جب بھی نکالے کپڑے
ہم نے احساسِ محبت کے گلابوں کی طرح
تو نے بھیجے تھے جو تحفے میں سنبھالے کپڑے
زندہ رہنے کے لیے اس سے ضروری کیا ہے
گھر ہے اولاد ہے دو چار نوالے ، کپڑے
ان کے رنگوں پہ چمک پر نہ تو جانا فوزی
سارے اترن ہیں ۔نہیں کوئی نرالے کپڑے
No comments:
Post a Comment