کون ہے جس سے مرے دل کا مکاں روشن ہے
اک دیا جیسے سر قریۂ جاں روشن ہے
ان بہاروں کے چراغوں کو بھلا کیا معلوم
شمع کی طرح سر دشت خزاں روشن ہے
آگ سلگی ہوئی اندر کی طرف ہوگی ضرور
ورنہ بیرون میں کیوں اتنا دھواں روشن ہے
آکے یہ قافلۂ دل بھی کہاں ٹھہرا ہے
ہے یقیں اپنا منور نہ گماں روشن ہے
آئینے نصب تو ہیں شہر کی دیواروں پر
عکس کا حسن وہ پہلے سا کہاں روشن ہے
وہ مجھے دیکھ کے ہو جاتا ہے غمگین بہت
گویا چہرے سے مرا درد نہاں روشن ہے
اس کے ہی نور سے ذرے ہیں منور ساغر
جس کے انوار سے یہ کاہکشاں روشن ہے
No comments:
Post a Comment