بھلے ہی ہست سے نابود ہوتا
زیاں میرا کسی کا سود ہوتا
میں جس کی آرزو میں مر رہا ہوں
تصور میں تو وہ موجود ہوتا
جمی ہے مصلحت کی برف ورنہ
ہمارا حوصلہ بارود ہوتا
ہوس کیونکر تمہیں بے چین کرتی
سکون دل اگر مقصود ہوتا
جو ہم کرتے نہ عزم حق نوائی
امیر شہر کیوں نمرود ہوتا
حسد کا تیل ہے تیرے دیے میں
اجالا تو نہ ہوتا دود ہوتا
طلسم آباد ہے شہر تخیل
جسے میں سوچتا مشہود ہوتا
خلشؔ مسلک ہے آفاقی ہمارا
کسی سرحد میں کیوں محدود ہوتا
No comments:
Post a Comment