بدلے میں دعاؤں کے کبھی زر نہیں لیتے
احسان کسی کا بھی قلندر نہیں لیتے
خود منزل مقصود لپٹ جاتی ہے ان سے
رہبر کا سہارا وہ کہیں پر نہیں لیتے
سو جاتے ہیں بورے پہ چٹائی پہ کہیں بھی
مفلس تو کبھی مخملی بستر نہیں لیتے
ہو جائے جہاں رات وہیں دن کو بسیرا
بے چارے یہ بنجارے کہیں گھر نہیں لیتے
سب لوٹ لیا کرتے ہیں بلوائی فسادی
اجڑے ہوئے لوگوں کا مقدر نہیں لیتے
اشکوں سے ہی ہم پیاس بجھا لیتے ہیں نازاںؔ
خوددار ہیں کچھ ایسے سمندر نہیں لیتے
No comments:
Post a Comment