ہمارے جامۂ ہستی کو اک دن چاک ہونا تھا
ہوئے تھے خاک سے پیدا ہمیں پھر خاک ہونا تھا
ترے غمزے تیری شرمیلی آنکھوں سے یہ کہتے ہیں
تمہیں جلاد ہونا تھا تمہیں سفاک ہونا تھا
ازل سے مرغ دل کو خطرۂ صیاد کیا ہوتا
کہ اس کو تو اسیر حلقۂ فتراک ہونا تھا
ہوائے دامن جاناں نہ اپنی خاک تک پہنچی
مقدر میں تو ممنون مزار پاک ہونا تھا
عدو کیونکر نہ آ جاتا یکایک بزم عشرت میں
اسے بشاش ہونا تھا مجھے غم ناک ہونا تھا
سیہ بختی مری بھی او قلم ہم دم نہ کیوں ہوتی
میرے سینے کو بھی ترے ہی صورت چاک ہونا تھا
نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی
کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا
جلال الدین احمد کیوں نہ جاتا عرشؔ دنیا سے
مجھے مرگ پسر میں مرتے دم غم ناک ہونا تھا
No comments:
Post a Comment