دل کے ہر داغ کو سینے سے لگائے رکھیے
خانۂ دل میں یہ فانوس جلائے رکھیے
زندگی وقت کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
دیدہ و دل کو قرینے سے سجائے رکھیے
شام غم کا جو فسانہ تھا وہ اب ختم ہوا
صبح امید کا ماحول بنائے رکھیے
اپنے اخلاص و محبت کے ہیں قائل سب لوگ
زندگانی کا یہی رنگ جمائے رکھیے
میں ابھی چپکے سے پی آتا ہوں مے خانے سے
زاہدوں کو ذرا باتوں میں لگائے رکھیے
رازداں اپنا فرشتہ نہیں انساں ہی تو ہے
دل کے ہر راز کو دل میں ہی چھپائے رکھیے
یہ جو ہے فرصت امروز غنیمت ہے شہیدؔ
آج کے کام کو کل پر نہ اٹھائے رکھیے
No comments:
Post a Comment