Urdu Deccan

Saturday, July 30, 2022

ساغر صدیقی

یوم وفات 19 جولائی 1974

 کوئی تتلی ہے نہ جگنو آہ شامِ بیکسی
 آج دل میں نسترن کی شاخ پھر چبھنے لگی

تونے کیا توڑا گلستاں سے وفا کا ایک پھول
 ہر کلی ہے غیر محرم ہر شگوفہ اجنبی

بے ارادہ چل رہا ہوں زندگی کی راہ پر
میرے مسلک میں نہیں ہے کاروبارِ رہبری

جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
 وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سایہ سوگئی

آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی

میں شعاعوں میں پگھل جاؤں مری فطرت نہیں
 وہ ستارہ ہوں کہ جس کو ڈھونڈتی ہے روشنی
 
 اور کتنی دور ہیں ساغر عدم کی منزلیں
 زندگی سے پوچھ لوں گا راستے میں گر ملی 
 
ساغر صدیقی 



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...