کوئی تتلی ہے نہ جگنو آہ شامِ بیکسی
آج دل میں نسترن کی شاخ پھر چبھنے لگی
تونے کیا توڑا گلستاں سے وفا کا ایک پھول
ہر کلی ہے غیر محرم ہر شگوفہ اجنبی
بے ارادہ چل رہا ہوں زندگی کی راہ پر
میرے مسلک میں نہیں ہے کاروبارِ رہبری
جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سایہ سوگئی
آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی
میں شعاعوں میں پگھل جاؤں مری فطرت نہیں
وہ ستارہ ہوں کہ جس کو ڈھونڈتی ہے روشنی
اور کتنی دور ہیں ساغر عدم کی منزلیں
زندگی سے پوچھ لوں گا راستے میں گر ملی
No comments:
Post a Comment