Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

سعید شہیدی

یوم پیدائش 14 جولائی 1914

جنون دل اگر آمادۂ اظہار ہو جائے 
بہار آنے سے پہلے ہی چمن بیدار ہو جائے 

خوشی کیسی خوشی سے واسطہ کیا غم پرستوں کو 
مسلسل غم نہ ہو تو زندگی دشوار ہو جائے 

ٹھہر اے برق یہ دو چار تنکے جمع تو کر لوں 
بس اتنی اور مہلت آشیاں تیار ہو جائے 

عطا کر ہاں عطا کر کائنات درد کے مالک 
اک ایسا درد جو نا قابل اظہار ہو جائے 

وہ آئیں یا نہ آئیں اب میں آنکھیں بند کرتا ہوں 
یوں ہی شاید مکمل انتظار یار ہو جائے 

یہ طوفاں یہ تلاطم صرف میری زندگی تک ہے 
اگر میں غرق ہو جاؤں تو بیڑا پار ہو جائے 

ابھی قابو ہے دل پر اپنی بربادی پہ ہنستا ہوں 
پھر اس کے بعد شاید ضبط غم دشوار ہو جائے 

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا 
کہ گرتے گرتے بجلی آپ خود بیزار ہو جائے 

سعیدؔ اب کیا کروں گا پاؤں کے چھالوں سے تنگ آ کر
دعا کرتا ہوں سارا راستہ پر خار ہو جائے

سعید شہیدی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...