رک جا تو ذرا بہرِ خدا عمرِ رواں اور
کچھ اور تو رہنے دے ابھی مجھ کو جواں اور
ہم ہجر سے بیزار ، انھیں وصل سے انکار
کیفیتِ دل کچھ ہے یہاں اور وہاں اور
کب دل کی لگی بجھتی ہے اشکوں کی جھڑی سے
جب آگ بجھاتے ہیں تو اٹھتا ہے دھواں اور
گلشن سے الگ ڈر کے بنایا تھا نشیمن
آ آ کے یہیں گرنے لگی برقِ تپاں اور
انگڑائی جو لیتا ہے کبھی بے خبری میں
اس شوخ کا ہوتا ہے عیاں حسنِ نہاں اور
محفل میں پڑھی جاتی ہیں غزلیں بہت اچھی
جوہرؔ کی غزل پڑھیے تو بندھتا ہے سماں اور
جوہر غازی پوری
No comments:
Post a Comment