صبح سفر اور شام سفر
ہستی کا انجام سفر
اونچے نام سے کیا ہوتا ہے
کرنا ہے بے نام سفر
سنئے خزاں سے کیا کہتی ہے
گل گلشن گلفام سفر
چاند ستارے اور ہوا
کس کو ہے آرام سفر
بچئے بچئے اس سے بچئے
کر دے جو بدنام سفر
گاہے کام بگاڑے بھی ہے
گاہے آوے کام سفر
کھل نہیں پائے اور مرجھائے
ہائے رے بے ہنگام سفر
کیسا سودا سر میں سمایا
سال و مہ و ایام سفر
شکوہ ہے بے بال و پری کا
دیکھیے زیر دام سفر
تم بھی رہو تیار ہی طرزیؔ
غالبؔ اور خیامؔ سفر
غزل
پا کے طوفاں کا اشارا دریا
توڑ دیتا ہے کنارا دریا
کیسے ڈوبے گی بھنور میں کشتی
کیسے دے گا نہ سہارا دریا
سیل ہمت ہیں ہمارے بازو
ڈوب جائے گا تمہارا دریا
بند افکار نے باندھے لیکن
چڑھ کے اترا نہ ہمارا دریا
اہل ہمت نے ڈبویا سب کو
ناخداؤں سے نہ ہارا دریا
اے اسیر غم ساحل ادھر آ
بیچ دھارے سے پکارا دریا
ہمت ترک وفا ڈوب گئی
کس نے آنکھوں میں اتارا دریا
موج نے پوچھ لیا کل طرزیؔ
کشتی پیاری ہے کہ پیارا دریا
No comments:
Post a Comment