کرم تیرا کہ سوز جاودانی لے کے آئی ہوں
مگر یہ کیا کہ میں اک عمر فانی لے کے آئی ہوں
یہ کس کافر کی محفل ہے کہ جس میں نذر کرنے کو
میں دل کی دھڑکنیں آنکھوں کا پانی لے کے آئی ہوں
یہ دنیا یہ خلوص و عشق کے رنگ آفریں نغمے
بیاباں میں گلستاں کی کہانی لے کے آئی ہوں
بھڑک کر شعلہ بن جائے کہ بجھ کر راکھ ہو جائے
ہوا کی زد پہ شمع زندگانی لے کے آئی ہوں
اگر چاہوں یہ دنیا پھونک ڈالوں اپنے نغموں سے
کہ میں سانسوں میں شعلوں کی روانی لے کے آئی ہوں
مرا دل بھی ہے محسوسات کا آتش کدہ آخر
عجب کیا ہے جو ذوق شعر خوانی لے کے آئی ہوں
ضیا اندوز ہوں اک آسمانی نور سے نجمہؔ
زمیں پر چاند تاروں کی جوانی لے کے آئی ہوں
No comments:
Post a Comment