Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

شاہد اقبال

یوم پیدائش 30 جولائی 1981

مسلسل چل نہیں سکتا کہیں منزل نظر آئے
یہ دورِ آزمائش ہے کوئی تو راہ بر آئے

نوازش کی توقع تھی کٹا کر اپنا سر آئے
ترے کوچے سے جانِ جاں لہو میں تر بہ تر آئے

محبت کے قواعد کا عجب انداز ہے صاحب
رخِ روشن پہ پردہ ہے، مگر چہرہ نظر آئے

شبِ فرقت یہی ہے آرزو اے خالقِ عالم
اذانِ فجر سے پہلے مرادِ قلب بر آئے

کوئی کہہ دے فقط اتنا مرے دم ساز سے جا کر 
مرے کاشانۂ دل میں کبھی باچشمِ تر آئے

دیارِ ہند میں کس کو بنائیں رہنما یا رب
کسی ساعت کہیں سے تو صدائے معتبر آئے

وہ درِ بے بہا لے کر دیارِ عشق میں شاہدؔ
حدیثِ عشق کہتی ہے بہ اندازِ دِگر آئے

شاہد اقبال



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...