بوجھ میرے ذہن کا اس روز ہلکا ہوگیا
رنگ جب محرومیوں کا اور گہرا ہوگیا
ایک لمحے کے لیے غصے میں دیکھا تھا اسے
سات پردوں میں چھپا وہ شخص ننگا ہوگیا
اس کی جانب پھیکنے کا جب ارادہ ہی کیا
ہاتھ کا پتھر نہ جانے کیسے شیشہ ہوگیا
ہر طرف رنگینیاں تھیں خواب تھے ، ارمان تھے
دیکھتے ہی دیکھتے، یہ شہر صحرا ہوگیا
بہہ گئیں موجوں میں جس کی شوق کی محرومیاں
خشک آنکھوں سے رواں میری وہ دریا ہو گیا
مندمل سب ہو گئے آفاقی جتنے زخم تھے
گھاؤ لیکن روح کا کچھ اور گہرا ہوگیا
No comments:
Post a Comment