آنکھ جس سمت اٹھائی تراکعبہ دیکھا
ذرّے ذرّے کو یہاں ناصیہ فرسا دیکھا
ہے تری راہ میں ہر ایک قدم چشمہ نُور
ہم نے ہر نقشِ قدم کو یدِ بیضا دیکھا
ہم نے ہر ذرّے کو اِک دیدۂ مجنوں پایا
ہرنظر گاہ کو اِک محملِ لیلیٰ دیکھا
جس کو دعویٰ ہے کہ ہوں خلوتِ جاں میں مستور
شوقِ جلوت میں اُسے انجمن آرا دیکھا
پھول کا رنگ ہو یا طائرِ گلشن کی ترنگ
ہم نے ہر رنگ میں اظہارِ تمنا دیکھا
ہے فنا اور بقا زیر و بمِ موج وجود
جس کا ساحل ہی نہیں ہم نے وہ دریا دیکھا
No comments:
Post a Comment