Urdu Deccan

Thursday, July 14, 2022

تبسم فاطمہ

یوم پیدائش 01 جولائی 1972
 نظم ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
خوشی کے لئے گھر ہی کافی نہیں ہے 
کہ گھر سے الگ کی بھی چاہت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں ویرانیوں کی اداسی کی تنہائیوں کی پسند ہوں 
جزیرے بناتی ہوں پھر توڑتی ہوں 
میں خوابوں کو آباد کرتی بھی ہوں راکھ کرتی بھی ہوں 
میں آزاد اڑتا پرندہ ہوں جس کے لئے 
آسماں کی اڑانیں بھی کم پڑ گئی ہیں 
زمیں تھم گئی ہے 
چراغوں کو جلنے کی عادت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں نادیدہ خوابوں کا احساس ہوں 
فلک تک جو گونجے وہ آواز ہوں 
دلوں تک جو پہنچے میں وہ ساز ہوں 
گھٹن قید بندش کے احساس سے کورے جذبات سے دور ہوں مطمئن 
میں سمندر ہوں بہتی ہوا اور گرجتی ہوئی موج ہوں 
میں سکندر کولمبس ہوں آزاد ہوں 
کہکشاں سے الگ کہکشاں اور بھی ہیں 
جہانوں میں کیوں خود کو میں قید رکھوں جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
میری فطرت میں میری طاقت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

تبسم فاطمہ


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...