یہ موت عالم برزخ ہے عارضی پر دہ
حیات وہ موت کی حد میں نہیں ہے تو محدود
جو ہست و نیست میں محدود ہے وجود ترا
تو پھر حیات کا تیری جہاں میں کیا مقصود
ترا وجود نہیں اس جہاں میں بے مقصد
یہ سیرگاہِ تجلّی تیری نہیں مسدود
یقین نہ آئے تو آنکھوں سے کائنات کو دیکھو
کہ اس کا بھی تو تیرے وجود سے ہی وجود
یہ آگ رہتی ہے بجھ کر بھی مثلِ خاکستر
حیات کیا ہے شرارِ حیات کی ہے نمود
اگر ہے ذوق تجسس تو دیکھ آنکھوں سے
ہر ایک ذرہ میں خود آفتاب کا ہے وجود
جو بے کنار ہے بے شک وہ تو سمندر ہے
نہ تو حباب نہ تو ایک قطرۂ بے بود
وہ ارتقاء کے نظریہ کے کیوں نہ قائل ہوں
وہ جن کی آنکھ فقط اب وہ گل میں ہو محدود
نہ یہ رہے گا سماں اور نہ خاکدانِ وجود
بروز حشر مگر حی کے ہوگا تو موجود
بہت عمیق ہے گو سجر زندگی تیرا
تلاش کر اسی دریا میں گوہر مقصود
No comments:
Post a Comment