Urdu Deccan

Friday, July 15, 2022

عابد اللہ غٓازی

یوم پیدائش 01 جولائی 1939

 نظم یاد علی گڑھ
وہ چائے کی پیالی پہ یاروں کے جلسے 
وہ سردی کی راتیں وہ زلفوں کے قصے 
کبھی تذکرے حسن شعلہ رخاں کے 
محبت ہوئی تھی کسی کو کسی سے 
ہر اک دل وہاں تھا نظر کا نشانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
بہت اپنا انداز تھا لاابالی 
کبھی تھے جلالی کبھی تھے جمالی 
کبھی بات میں بات یوں ہی نکالی 
سر راہ کوئی قیامت اٹھا لی 
کسی کو لڑانا کسی کو بچانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کبھی سچی باتوں کو جھوٹا بتایا 
کبھی جھوٹی باتوں کو سچ کر دکھایا 
کبھی راز دل کہہ کے اس کو چھپایا 
کبھی دوستوں میں یوں ہی کچھ اڑایا 
بتا کر چھپانا چھپا کر بتانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کبھی بزم احباب میں شعلہ افشاں 
کبھی یونین میں تھے شمشیر براں 
کبھی بزم واعظ میں تھے پا بہ جولاں 
بدلتے تھے ہر روز تقدیر دوراں 
جہاں جیسی ڈفلی وہاں ویسا گانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
زمانہ تھا وہ ایک حیوانیت کا 
وہ دور ملامت تھا شیطانیت کا 
ہمیں درد تھا ایک انسانیت کا 
اٹھائے علم ہم تھے حقانیت کا 
بڑھے جا رہے تھے مگر باغیانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
مقابل میں آئے جسارت تھی کس کو 
کوئی روک دے بڑھ کے ہمت تھی کس کو 
پکارے کوئی ہم کو طاقت تھی کس کو 
کہ ہر بوالہوس کو تھے ہم تازیانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
خیالات پر شوق کا سلسلہ تھا 
بدل دیں زمانے کو وہ حوصلہ تھا 
ہر اک دل میں پیدا نیا ولولہ تھا 
ہر اک گام احباب کا قافلہ تھا 
ادھر دعویٰ کرنا ادھر کر دکھانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ شہہ راہ میرس کے پر پیچ چکر 
وہ شمشاد بلڈنگ پہ اک شور محشر 
وہ مبہم سی باتیں وہ پوشیدہ نشتر 
وہ بے فکر دنیا وہ لفظوں کے دفتر 
کہ جن کا سرا تھا نہ کوئی ٹھکانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کسی کو ہوئی تھی کسی سے محبت 
کوئی کر رہا تھا کسی کی شکایت 
غرض روز ڈھاتی تھی تازہ قیامت 
کسی کی شباہت کسی کی ملامت 
کسی کی تسلی کسی کا ستانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کوئی غم زدہ تھا کوئی ہنس رہا تھا 
کوئی حسن ناہید پر مر مٹا تھا 
کوئی چشم نرگس کا بیمار سا تھا 
کوئی بس یوں ہی تاکتا جھانکتا تھا 
کبھی چوٹ کھانا کبھی مسکرانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ ہر جنوری میں نمائش کے چرچے 
وہ پر شوق آنکھیں وہ حیران جلوے 
وہ چکر پہ چکر تھے بارہ دری کے 
وہ حسرت کہ سو بار مل کر بھی ملتے 
ہزاروں بہانوں کا وہ اک بہانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ رخ آفتابی پہ ابرو ہلالی 
وہ تمثال سیمیں وہ حسن مثالی 
شگوفوں میں کھیلی گلابوں میں پالی 
وہ خود اک ادا تھی ادا بھی نرالی 
نگاہیں بچا کر نگاہیں ملا کر 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ ہرچند مجھ کو نہیں جانتی تھی 
مگر میری نظروں کو پہچانتی تھی 
اگرچہ مرے دل میں وہ بس گئی تھی 
مگر بات بس دل کی دل میں رہی تھی 
مگر آج احباب سے کیا چھپانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ اک شام برسات کی دن ڈھلا تھا 
ابھی رات آئی نہ تھی جھٹپٹا تھا 
وہ باد بہاری سے اک گل کھلا تھا 
دھڑکتے ہوئے دل سے اک دل ملا تھا 
نظر سن رہی تھی نظر کا فسانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
جوانی اداؤں میں بل کھا رہی تھی 
کہانی نگاہوں میں لہرا رہی تھی 
محبت محبت کو سمجھا رہی تھی 
وہ چشم تمنا جھکی جا رہی تھی 
قیامت سے پہلے قیامت وہ ڈھانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
ہمیں بیتی باتیں جو یاد آ رہی تھیں 
وہ مخمور نظریں جو شرما رہی تھیں 
بہت عقل سادہ کو بہکا رہی تھیں 
بڑی بے نیازی سے فرما رہی تھیں 
انہیں یاد رکھنا ہمیں بھول جانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
اب وہ امنگیں نہ دل میں مرادیں 
اب رہ گئیں چند ماضی کی یادیں 
یہ جی چاہتا ہے انہیں بھی بھلا دیں 
غم زندگی کو کہاں تک دعا دیں 
حقیقت بھی اب بن گئی ہے فسانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
علی گڑھ ہے بڑھ کر ہمیں کل جہاں سے 
ہمیں عشق ہے اپنی اردو زباں سے 
ہمیں پیار ہے اپنے نام و نشاں سے
یہاں آ گئے ہم نہ جانے کہاں سے 
قسم دے کے ہم کو کسی کا بلانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
محبت سے یکسر ہے انجان دنیا 
یہ ویران بستی پریشان دنیا
کمال خرد سے یہ حیران دنیا 
خود اپنے کیے پر پشیمان دنیا 
کہاں لے کے آیا ہمیں آب و دانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 

عابد اللہ غٓازی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...