یوم پیدائش 02 جولائی 1941
بروز حشر مرا احتساب کیا ہوگا
کہ اس زمیں کے سوا اور عذاب کیا ہوگا
مدام فکر میں بے عقل کا تسلسل کار
کتاب زیست کا آئندہ باب کیا ہوگا
جواں دلوں میں فقط نفرتیں ہی ملتی ہیں
زیادہ اس سے کوئی انقلاب کیا ہوگا
عطا کیا مہ کامل کو عشرتوں کا غرور
اندھیری رات سے بڑھ کر عذاب کیا ہوگا
طلسم کیف و نظر مدعائے بے خبری
طلسم ہوش و خرد کا نصاب کیا ہوگا
گناہ گار نظر بھی ہے دل کی دھڑکن بھی
وہ پوچھ لیں گے تو میرا جواب کیا ہوگا
بہ فیض جرأت رندانہ دیکھنا تو انیسؔ
ادا شناسوں کا تجھ پر عتاب کیا ہوگا
No comments:
Post a Comment