گرچہ ہاتھوں کو اٹھا رکھا ہے
بے طلب دستِ دعا رکھا ہے
اب بھی کچھ پاسِ وفا رکھا ہے
کم سہی کچھ تو بچا رکھا ہے
ہے مجھے آبلہ پائی سے غرض
ورنہ اس دشت میں کیا رکھا ہے
سینکڑوں عکس مقید ٹھہرے
مجھ میں کچھ آئینہ سا رکھا ہے
نام آنکھوں کا رکھا برقِ تپاں
اور گیسو کا گھٹا رکھا ہے
رنگ جتنے ہیں جاں ستانی کے
تاجؔ سب ہم پہ روا رکھا ہے
No comments:
Post a Comment