دل پر تقاضے درد کے ہر دم ہیں اور بھی
اک تیرے غم سے ہٹ کے کئی غم ہیں اور بھی
ہم کو خبر نہیں کہ کہاں کھوگئی نظر
حسنِ تجلیات کے عالم ہیں اور بھی
اظہارِ آرزو سے پشیماں ہے زندگی
وہ حسن اتفاق سے برہم ہیں اور بھی
کیا کیا امید ہم کو بہاروں سے تھی مگر
دامن گلوں کے پہلے سے کچھ نم ہیں اور بھی
چارہ گری کا آپ کی شاید اثر یہ ہے
اب دل کے زخم ، قابلِ مرہم ہیں اور بھی
تنہا پسندیوں نے جو تنہا کیا ہمیں
نزدیک رہ کے دور مگر ہم ہیں اور بھی
مدہم چراغِ گل جو ہیں مسرور آج کل
گلشن میں دن بہار کے کچھ کم ہیں اور بھی
No comments:
Post a Comment