گرتے ابھرتے ڈوبتے دھارے سے کٹ گیا
دریا سمٹ کے اپنے کنارے سے کٹ گیا
موسم کے سرد و گرم اشارے سے کٹ گیا
زخمی وجود وقت کے دھارے سے کٹ گیا
کیا فرق اس کو جڑ سے اکھاڑا گیا جسے
ٹکڑے کیا تبر نے کہ آرے سے کٹ گیا
تنہائی ہم کنار ہے صحرا کی رات بھر
کیسے میں اپنے چاند ستارے سے کٹ گیا
چلتا ہے اپنے پاؤں پہ اب آن بان سے
اچھا ہوا وہ جھوٹے سہارے سے کٹ گیا
دیواریں اونچی ہوتی گئیں آس پاس کی
گھر میرا پیش و پس کے نظارے سے کٹ گیا
نکلا تھا اک قدم ہی حد احتیاط سے
شعلوں سے بچنے والا شرارے سے کٹ گیا
آتا نہیں یقیں کہ نظر اس نے پھیر لی
کیسے وہ اپنے درد کے مارے سے کٹ گیا
No comments:
Post a Comment