کس درجہ انتشار ہمارے وطن میں ہے
ہر پھول اشک بار ہمارے وطن میں ہے
کیسی خزاں کی مار ہمارے وطن میں ہے
سہمی ہوئی بہار ہمارے وطن میں ہے
جتنا بھی چاہو لوٹ لو سرکاری مال ہے
لوگوں کا یہ وچار ہمارے وطن میں ہے
کر کے مدد غریب کی لیتا ہے سیلفی
ہر شخص غم گسار ہمارے وطن میں ہے
ہر سو تنا تنی ہے مذاہب کے نام پر
ماحول خوش گوار ہمارے وطن میں ہے
سلفا، شراب ، گانجا ، چرس اور افیم بھی
ہر چیز بے شمار ہمارے وطن میں ہے
اک بار چڑھ کے سر سے اترتا نہیں کبھی
سٹّے کا وہ خمار ہمارے وطن میں ہے
کچرے سے بھی نصیب ہیں لاکھوں کو روٹیاں
ہر سِمت روزگار ہمارے وطن میں ہے
سر پر ہو کوئی بھوت یا سایہ ہو جنّ کا
ہر چیز کا اتار ہمارے وطن میں ہے
کچھ ہو نہ ہو یہاں پہ مگر یار یہ تو ہے
نیتاؤں پر نکھار ہمارے وطن میں ہے
مشہور ہے جگاڑ یہاں کا جہان میں
ہر شخص ہوشیار ہمارے وطن میں ہے
چیونٹی بھی جنکی پھونک سےنہ اڑسکی کبھی
ان کا بھی اب مزار ہمارے وطن میں ہے
چھوتے ہیں پاؤں گولی چلانے سے پیشتر
کچھ ایسا ششٹاچار ہمارے وطن میں ہے
جو جھوٹ بولتا ہے ہر اک بات پر سدا
اس پر بھی اعتبار ہمارے وطن میں ہے
مِل جُل کے لوگ رہتے ہیں ایسے میں بھی فراز
آپس میں کتنا پیار ہمارے وطن میں ہے
No comments:
Post a Comment