جہاں میں کھیل ہے جتنا سب اعتماد کاہے
یہ تیرا میرا تقابل تو اُس کے بعد کا ہے
بھُلا نہ پاتے جو کل کیسے دیکھتے کل کو
یہ وقت کا نہیں سارا کمال یاد کا ہے
زمین سے بھی میں اِک دن نکالا جاؤں گا
مری زُباں کو جو چسکا نئے سواد کا ہے
تھمے جو داد کے جھکڑ تو ہم نے یہ جانا
سفیدا بالوں میں جتنا ہے گرد باد کا ہے
یہ دل میں آرزو یونہی جنم نہیں لیتی
قصور سارا تمہارے وعیدووعد کا ہے
جو تُو نہ ہو تو یونہی ڈولتا سا رہتا ہوں
ہمارا رشتہ عجب بادبان و باد کا ہے
نہ جاگتے ہیں نہ سوتے ہیں میرے شہر کے لوگ
ہمیشہ دھڑکا سا دل میں نئے فساد کا ہے
میں بیج خوابوں کے بوؤں نہ کیوں وہاں عابد
وطن سے رشتہ ہی کچھ ایسا اعتماد کا ہے
عابد رشید
No comments:
Post a Comment