عشق ناچار اور ہے مجبور
اس لئے حسن ہو گیا مغرور
رہ نہیں سکتا آپ سے میں دور
مجھ کو بانہوں میں تم کرو محصور
جانے کس بات کا نشہ ہے انہیں
اپنی دھن میں ہی رہتے ہیں مخمور
تیری قربت کا ہی اثر ہے یہ
میرے رخ پر جو آ گیا ہے نور
اس کی نظروں میں سب برابر ہیں
کوئی مالک نہ کوئی ہے مزدور
بخش دیں یا کہ عمر قید ملے
فیصلہ جو بھی ہو ہمیں منظور
سب کو آزادی ہے برابر کی
کہہ رہا ہے یہ ہند کا دستور
دن تمام اپنا خوں بہاتا ہے
دو نوالوں کے واسطے مزدور
کیا کرشمہ ہے آج میڈیا کا
پل میں گمنام بھی ہوئے مشہور
جان لیوا وہ درد دیتا ہے
زخم جب جب بھی بن گیا ناسور
کیوں بچھڑ نے کے بعد بھی 'رہبر
غمزدہ ہم ہیں اور وہ مسرور
No comments:
Post a Comment