اے کاتبِ تقدیر ذرا دیکھ ادھر بھی
مجبوریِ حالات ہیں اور چاک جگر بھی
اے رشتہء امید مرا تھام لے دامن
ہونا ہے جفا کار ہواؤں کا گزر بھی
بیزار بہت دشتِ مسافت میں رہے ہم
کاٹا ہے اسی حال میں صدیوں کا سفر بھی
مانوس نگاہوں نے تری قید کیا ہے
اب ڈھونڈنے سے ملتی نہیں راہِ مفر بھی
مل پائے گا کیسے میری کشتی کو کنارہ
اب موج تلاطم مجھے لے جائے جدھر بھی
پہلے تو حسیں رنگ کو مسلیں گے ستمگر
پھر نوچیں گے تتلی کے یہی بال بھی پر بھی
ہم لوگ ہیں تنکے کی طرح بے سروساماں
رہتا ہے جنہیں تیز ہواؤں سے خطر بھی
اے شہر ستم گر مجھے اس بات کا ڈر ہے
مر جاۓ مرے ساتھ نہ اب میرا ہنر بھی
No comments:
Post a Comment