Urdu Deccan

Wednesday, August 17, 2022

احسان علی احسان

یوم پیدائش 04 اگست 1996

اے کاتبِ تقدیر ذرا دیکھ ادھر بھی 
مجبوریِ حالات ہیں اور چاک جگر بھی

اے رشتہء امید مرا تھام لے دامن
ہونا ہے جفا کار ہواؤں کا گزر بھی

 بیزار بہت دشتِ مسافت میں رہے ہم 
کاٹا ہے اسی حال میں صدیوں کا سفر بھی

مانوس نگاہوں نے تری قید کیا ہے 
اب ڈھونڈنے سے ملتی نہیں راہِ مفر بھی 

مل پائے گا کیسے میری کشتی کو کنارہ
اب موج تلاطم مجھے لے جائے جدھر بھی

پہلے تو حسیں رنگ کو مسلیں گے ستمگر
پھر نوچیں گے تتلی کے یہی بال بھی پر بھی 

ہم لوگ ہیں تنکے کی طرح بے سروساماں 
رہتا ہے جنہیں تیز ہواؤں سے خطر بھی 

اے شہر ستم گر مجھے اس بات کا ڈر ہے 
مر جاۓ مرے ساتھ نہ اب میرا ہنر بھی

احسان علی احسان



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...