قاتلِ جاں ہے مگر جان سے پیارا پھر بھی
غیر کا ہو کے بھی لگتا ہے ہمارا پھر بھی
یہ الگ بات بھنور کے ہیں تقاضے اپنے
ڈوبتے ڈوبتے ساحل کو پکارا پھر بھی
زندگی ڈال نہ یوں مجھ پہ حقارت کی نظر
جیسے تیسے ہی سہی تجھ کو گزارا پھر بھی
منزلیں کھو ہی گئیں عرشیؔ مسافت میں مگر
کوئی دیتا ہی رہا مجھ کو سہارا پھر بھی
No comments:
Post a Comment