Urdu Deccan

Wednesday, August 24, 2022

جیلانی کامران

یوم پیدائش 24 اگست 1926
نظم قسمت کا پڑھنے وال

میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 
کون خفا ہے 
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 

جیلانی کامران

 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...