اگر ساقی تسلی بخش سمجھوتا نہیں ہوتا
تو پھر تشنہ لبوں کا جوش بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا
جو خود مختارِ گلشن ہیں وہاں ایسا نہیں ہوتا
عَناِدل کی فغاں و آہ پر پہرا نہیں ہوتا
وفورِ عیش سے ہر چند مالا مال ہے لیکن
شعورِ عاشقی انسان میں پیدانہیں ہوتا
وفاداری کے دستورالعمل ہی کو بدل ڈالے
محبت میں کسی کم بخت سے اتنا نہیں ہوتا
جب آتا ہے تو پھر طوفان پر طوفان آتا ہے
نہیں ہوتا تو برسوں فتنہ بھی برپا نہیں ہوتا
غمِ دل سے گراں تر ہے غم ِدنیا ومافیہا
یہ غم پیدا کیا جاتا ہے خود پیدا نہیں ہوتا
تمہیں انصاف سے کہہ دو مسیحا ہو کہ قاتل ہو
کہ ہر بیمار ۔ مر جاتا تو ہے اچھا نہیں ہوتا
غموں کی کوئی حد بھی ہے کہاں تک سختیاں جھیلے
کسی کا دل ہو ۔ دل ہوتا ہے ، پتھر کا نہیں ہوتا
یہاں تفریقی شیخ و برہمن اچھی نہیں ساقی
یہاں کوئی کسی کے خون کا پیاسا نہیں ہوتا
وہ بھی اک پردہ تھاحیرت جسے تم جلوہ سمجھے ہو
جو آنکھوں کو نظر آجائے وہ جلوا نہیں ہوتا
حیرت بدایونی
No comments:
Post a Comment