مکیں کو دیکھا گیا مکاں سے
یقیں کا رستہ ملا گماں سے
یہ اپنے اندر کہانیاں ہیں
نظر جو آتے ہیں یہ مکاں سے
تمہیں دکھاؤں تمہارا چہرہ
لکیر کھینچوں گا درمیاں سے
جڑی ہوئی ہے ہر اک کہانی
کہیں تبسم، کہیں فغاں سے
یہ کیا کہ پھر امتحاں ہے سر پر
ابھی تو گزرا ہوں امتحاں سے
یہی تو ہیں، زندگی کا حاصل
یہ چند لمحے، جو رائگاں سے
زاہد سعید شیخ
No comments:
Post a Comment