Urdu Deccan

Sunday, August 21, 2022

فیض لدھیانوی

یوم پیدائش 15 اگست 1911
نظم آدمی 

جس قدر دنیا میں مخلوقات ہے 
سب سے اشرف آدمی کی ذات ہے 
اس کی پیدائش میں ہے الفت کا راز 
اس کی ہستی پر ہے خود خالق کو ناز 
اس کی خاطر کل جہاں پیدا ہوا 
یہ زمیں یہ آسماں پیدا ہوا 
عقل کا جوہر اسے بخشا گیا 
علم کا زیور اسے بخشا گیا 
اس کے سر میں ہے نہاں ایسا دماغ 
جس میں روشن ہے لیاقت کا چراغ 
سوچ کر ہر کام کر سکتا ہے یہ 
شیر کو بھی رام کر سکتا ہے یہ 
یہ صفائی سے چٹانیں توڑ دے 
اپنی دانائی سے دریا موڑ دے 
من چلا ہے اس کی ہمت ہے بلند 
ڈال سکتا ہے ستاروں پر کمند 
اس کو خطروں کی نہیں پروا ذرا 
آگ میں کودا یہ سولی پر چڑھا 
اس کے ہر انداز میں اعجاز ہے 
عرش تک اس نور کی پرواز ہے 
اس کی باتوں میں عجب تاثیر ہے 
خاک کا پتلا نہیں اکسیر ہے 
یہ اگر نیکی کے زینے پر چڑھے 
ایک دن سارے فرشتوں سے بڑھے 
اور اگر عصیاں کی دلدل میں پھنسے 
اس کا درجہ کم ہو حیوانات سے 
یہ کبھی روئی سے بڑھ کر نرم ہے 
یہ کبھی سورج سے بڑھ کر گرم ہے 
ایک حالت پر نہیں اس کا مزاج 
ہر زمانے میں بدلتا ہے رواج 
اور تھا پہلے یہ اب کچھ اور ہے 
آئے دن اس کا نرالا طور ہے 
اس نے بے حد روپ بدلے آج تک 
اس کی تدبیروں سے حیراں ہے فلک 
ڈاکٹر تاجر پروفیسر وکیل 
ان کا ہونا ہے ترقی کی دلیل 
اس کے پہلو میں وہ دل موجود ہے 
جو بھڑکنے میں نرا بارود ہے 
ریل گاڑی ریڈیو موٹر جہاز 
اس کی ایجادوں کا قصہ ہے دراز 
دست کاری میں بڑا مشاق ہے 
جدتوں کا ہر گھڑی مشتاق ہے 
کھول آنکھیں جنگ کی رفتار دیکھ 
دیکھ اس کے خوفناک اوزار دیکھ 
یہ کہیں حاکم کہیں محکوم ہے 
یہ کہیں ظالم کہیں مظلوم ہے 
آدمی جب غیر کے آگے جھکا 
آدمیت سے بھٹکتا ہی گیا 
آدمی ملنا بہت دشوار ہے 
خود خدا کو آدمی درکار ہے 
پیارے بچو آدمی بن کر رہو 
ہر کسی کے ساتھ ہمدردی کرو 
سچ اگر پوچھو تو بس وہ مرد ہے 
جس کے دل میں دوسروں کا درد ہے 
فیضؔ پہنچاتا نہیں جو آدمی 
اس کو اپنی ذات سے ہے دشمنی 
اس کو اپنی ذات سے ہے دشمنی

فیض لدھیانوی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...