دھوپ چٹکی ہے کہیں برف جما رکھی ہے
اُس نے دنیا بڑی حکمت سے سجا رکھی ہے
گھر کی ہر چیز سلیقے سے سجا رکھی ہے
اپنی تہذیب مگر دل سے بھلا رکھی ہے
وہ مرا ہے وہ مرا تھا وہ رہیگا میرا
میں نے دنیا سے یہی شرط لگا رکھی ہے
آگ لگ جائے نہ خوشبو کے دریچوں میں کہیں
اُس نے خوش رنگ ہتھیلی پہ حنا رکھی ہے
پی لئے ریت پہ بہتے ہوئے دریا کس نے
کس نے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ دعا رکھی ہے
لوگ کیسے ہیں کہ جینے کو مرے جاتے ہیں
زندگی اصل مگر بعدِ فنا رکھی ہے
کون کاٹے گا اسےاور پکے گی کب تک
فصل جو ہم نے گناہوں کی لگا رکھی ہے
اب مجھے اپنی غزل راس نہ آئیگی مجاز
سامنے میرے ابھی بانگِ درا رکھی ہے
No comments:
Post a Comment