جو موج تند میں ہوش و حواس کھوتے ہیں
وہ اپنی کشتیاں خود آپ ہی ڈبوتے ہیں
وفا کی بھیک حسینوں سے مانگنے والے
بڑے عجیب ہیں ، پتھر پہ بیج بوتے ہیں
کسی کی یاد میں دہلیز پر دیئے نہ جلا
کواڑ سوکھی ہوئی لکڑیوں کے ہوتے ہیں
یہ شہر، شہر خموشاں ہے دیکھتے جاؤ
اسی کی گود میں سب لوگ آکے سوتے ہیں
خدا کے واسطے برباد کر نہ اشکوں کو
یہ وہ گہر ہیں کہ دامن ہی میں پروتے ہیں
قصاس خوں کا مرے کون ہے جو مانگے گا
حضور کس لئے دامن کو آپ دھوتے ہیں
کرم وہ کیوں نہ کرے گا، کہ حضرت سیفی
شراب پی کے سہی، غفلتوں پہ روتے ہیں
No comments:
Post a Comment