ایک انسان بدلتا ہے جو پیکر کتنے
میری آنکھوں نے دکھائے ہیں وہ منظر کتنے
اپنی طاقت پہ بہت ناز جو کرتے تھے کبھی
مل گئے خاک میں وہ ظلم کے لشکر کتنے
عہد ماضی کے جھروکوں سے جو جھانکا میں نے
زلزلے آئے مرے قلب کے اندر کتنے
بن گئی شاخ ثمر دار مری ہستی جب
لالچی ہاتھوں سے پھینکے گئے پتھر کتنے
سرنگوں کر دیا طوفاں نے انھیں پل بھر میں
سر اٹھائے تھے کھڑے پیڑ تناور کتنے
جب بھی پھیلی ہے زمانے میں سحرؔ گمراہی
آئے لوگوں کی ہدایت کو پیمبر کتنے
No comments:
Post a Comment