نکل کے خود سے وہ اپنے ساجن میں آ گئی ہے
کسی سپیرے کی روح، ناگن میں آگئی ہے
ہماری آنکھوں کی اس نمی کو کوئی تو دیکھے
کہ اب تو اسکی کشش بھی ساون میں آ گئی ہے
ہمارے لہجے میں دوستی جو چھپی ہوی تھی
وہ رفتہ رفتہ ہمارے دشمن میں آ گئی ہے
کسی کے آگے کسی کے پیچھے گزر رہی ہے
یہ زندگی جو ہمارے راشن میں آ گئی ہے
کئی طرح کے سمندروں نے پکارا لیکن
سنہری مچھلی ہمارے برتن میں آگئی ہے
ہمیں ہماری طرح کے لوگوں میں بیٹھنا ہے
کہ اب طبیعیت ذرا توازن میں آ گئی ہے
ہمیں سمجھنے میں تھوڑی غفلت ہوئی ہے اس سے
اسی لیئے تو وہ دوست ! الجھن میں آ گئی ہے
ہمیں وہ جھٹلا رہی ہے لیکن ہمیں پتا ہے
وہ آج پھر سے کسی کے باشن میں آگئی ہے
ہمارے سینے سے لگ گئی تو یقین آیا
کہ شاہزادی اب اپنے مسکن میں آ گئی ہے
شہزاد مرزا
No comments:
Post a Comment