نیتیں صاف ہوں، برکت ہی الگ ہوتی ہے
گھر غریبوں کے فراغت ہی الگ ہوتی ہے
ہم جو پگھلیں تو نشیبوں کوکریں گے سیراب
کوہساروں کی طبیعت ہی الگ ہوتی ہے
دل کے صفحوں پہ لکھا جاتاہے افسانہء غم
خشک آنکھوں کی عبارت ہی الگ ہوتی ہے
پیش دستار سے کیا کم ہے جبینوں کے نشاں
ہم فقیروں کی عمارت ہی الگ ہوتی ہے
سرپھری موجوں کو واپس کرے ڈھارِس دے کر
بوڑھے ساحل میں مہارت ہی الگ ہوتی ہے
کھینچ لاتی ہے انھیں بوڑھے درختوں کی کشش
یا پرندوں کی محبت ہی الگ ہوتی ہے
ملک محی الدین
No comments:
Post a Comment