جب سے وہ چشمِ التفات نہیں
جی رہا ہوں مگر وہ بات نہیں
ہائے یہ گردشیں زمانے کی
دل مرا مائلِ حیات نہیں
جی حضوری نہیں مرا شیوہ
مصلحت میرے بس کی بات نہیں
ایسا برہم ہوا جہاں کا نظام
کوئی آسودۂ حیات نہیں
تجھ کو قدرِ حیات کیا معلوم
تو ابھی وقفِ حادثات نہیں
جب چمنؔ چار سو اندھیرے ہوں
کیسے کہہ دوں یہ دن ہے رات نہیں
انور بیگ چمن
No comments:
Post a Comment