تنہائی
آگاہ ہوا کذبِ دل آرائی سے
ہوش آیا فریب کھا کے رعنائی سے
میں محفل صد رنگ جہاں بھول گیا
جب ربط بڑھا شاہد تنہائی سے
سطحی ہے زمانے کی رفاقت کا مزہ
جھوٹا ہے یہ احباب کی صحبت کا مزہ
جلوے جلوت کے ہیج ہو جاتے ہیں
پاجائے اگر دل کہیں خلوت کا مزہ
اک ساز سکوں ہے لطف پیمائی ہے
عرلت کی بہار مجھکو راس آئی ہے
دنیا کی محفلوں میں تنہا تھا میں
تنہائی میں کیا انجمن آرائی ہے
زیب و زینت ہے حسن و رعنائی ہے
افکار کی تخلیق میں گہرائی ہے
اک بزم خیالات ہے شاعر کے ساتھ
صفدر آہ
No comments:
Post a Comment