مانا کہ بادشاہ و سکندر نہیں ہوں میں
لیکن کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں میں
میں تھک چکا ہوں کرتے ہوئے خود کا انتظار
کب تک کہونگا سب سے کہ گھر پر نہیں ہوں میں
کس کو صدائیں دیتے ہو کس کو بلاتے ہو
تم سے کہا نا اب مِرے اندر نہیں ہوں میں
تو دانے ڈال میں نہیں آؤنگا جال میں
شاہین ہوں کہ کوئی کبوتر نہیں ہوں میں
یوں مجھ کو جان جان بلانا فضول ہے
گر تجھ کو تیری جان سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
اب ایسی ویسی آنکھوں کو آتا ہوں میں نظر
افسوس تیری آنکھوں کا منظر نہیں ہوں میں
No comments:
Post a Comment