Urdu Deccan

Monday, September 26, 2022

ظفر مرادآبادی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1951

تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے 
لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے 

کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے 
ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے 

سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے 
سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے 

مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند 
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے 

وہ جس کی پاک اڑانوں کے معترف تھے سب 
جلے ہوئے وہی شہپر حیا کے رکھے تھے 

بنا یزید زمانہ جو میں حسین بنا 
کہ ظلم باقی ابھی کربلا کے رکھے تھے 

انہیں کو توڑ گیا ہے خلوص کا چہرہ 
جو چند آئنے ہم نے بچا کے رکھے تھے 

یوں ہی کسی کی کوئی بندگی نہیں کرتا 
بتوں کے چہروں پہ تیور خدا کے رکھے تھے 

گئے ہیں باب رسا تک وہ دستکیں بن کر 
ظفرؔ جو ہاتھ پہ آنسو دعا کے رکھے تھے

ظفر مرادآبادی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...