اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی
در بند ہیں ایسے کہ ہوا بھی نہیں آتی
حیران ہوں دو سہمے ہوئے ہاتھ اٹھائے
کیا مانگوں خدا سے کہ دعا بھی نہیں آتی
پر ہول ہے اس طرح سے سناٹے کا عالم
خود اپنی ہی چیخوں کی صدا بھی نہیں آتی
جو درد کے صحرا میں کبھی باد صبا تھی
اب شہر سے تیرے وہ ہوا بھی نہیں آتی
جس بات پہ ہم تیاگ چکے ہیں تری دنیا
وہ بات انھیں یاد ذرا بھی نہیں آتی
No comments:
Post a Comment