نوحہ
سرور شہید ہوگئے تاثیر رہ گئی
دنیا میں صبر و شکر کی تصویر رہ گئی
سرور نے رو کے لاشۂ اکبر پہ یہ کہا
ریتی پہ ہائے چاند سی تصویر رہ گئی
اٹھارہ سال والے کی میت پہ بولی ماں
رونے کو ہائے مادرِ دل گیر رہ گئی
خنجر گلے پہ شمرِ لعیں پھیرتا رہا
سر اپنا پیٹتی ہوئی ہمشیر رہ گئی
زینب یہ بین کرتی تھی ، ہائے ستم ہوا
بے گور لاشِ حضرتِ شبیر رہ گئی
اہلِ حرم اسیر ہوئے ، دربدر پھرے
کیا آلِ مصطفیٰ کی یہ توقیر رہ گئی
فریاد کرتی جاتی تھی یہ دخترِ حسین
در در پھرانے کو مجھے تقدیر رہ گئی
اخترؔ بہ فیضِ خونِ شہیدانِ کربلا
بس مٹتے مٹتے دین کی تقدیر رہ گئی
No comments:
Post a Comment