بڑی حیرت میں ہے سوزِ نہاں تک
نہیں اُٹھنے دیا میں نے دھواں تک
ترے محلوں کے سنّاٹوں کے صدقے
جہاں گم ہو گیا شورِ فغاں تک
خبر پہنچا دے کوئی سوئے صحرا
بگولےآچکے ہیں گلستاں تک
سرِ تسلیم خم، ہر فیصلے پر
سوال اُٹھتا ہے یہ، آخر کہاں تک
چلو ڈھونڈیں سُراغِ زندگانی
مکاں کی دُور بیں سے ، لامکاں تک
وہ تیشہ زن بھلا اب کیا ملیں گے
جو رکھ دیں کاٹ کر کوہِ گراں تک
ندیمؔ ان چند سانسوں کے سہارے
چلو جیتے ہیں، مرگِ نا گہاں تک
No comments:
Post a Comment