Urdu Deccan

Sunday, September 18, 2022

حزیں صدیقی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1922

جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو
 ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو

کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی
 کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو

کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا
 کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو

کہیں ایسا نہ ہو شیرازہِ ہستی بکھر جائے
 نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو

کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے 
حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو

حزیں صدیقی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...