رنگ ہے پھول ہے خوشبو ہے صبا ہے کوئی
چمنِ زیست میں یوں جلوہ نما ہے کوئی
ساری دنیا کی نگاہوں سے ہے پردہ میرا
اور چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے کوئی
میری شرکت بھی گوارہ نہیں شاید اُس کو
میرے آتے ہی تو محفل سے اٹھا ہے کوئی
دن وہی رات وہی ، صبح وہی شام وہی
ماسوا اس کے بھی جینے کی سزا ہے کوئی
خون آنکھوں سے چھلک کر جو ہتھیلی پہ گرا
وہ سمجھ بیٹھے کہ تحریرِ حنا ہے کوئی
کوئی ایسا بھی ہو سیما جو مناکر لائے
روٹھ کر مجھ سے بہت دور کھڑا ہے کوئی
No comments:
Post a Comment